(تبصرہ: امام ابنِ کثیر، امام طبری اور شیخ عبدالرحمٰن السعدی کی تفاسیر کی روشنی میں)
سورۃ الاخلاص قرآنِ مجید کی ایک نہایت اہم اور عظیم سورت ہے، جسے توحید کا نچوڑ اور ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ یہ قرآن کی 112ویں سورت ہے اور صرف چار آیات پر مشتمل ہونے کے باوجود اپنے معانی اور پیغام میں بے مثال گہرائی رکھتی ہے۔
نزول کا پس منظر
امام طبریؒ نے روایت کیا ہے کہ قریش کے کچھ سرداروں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا
"اے محمد! ہمیں اپنے رب کی حقیقت بتاؤ!"
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی، جو ربّ کریم کی ذات کی کامل توحید اور بے نیازی کو واضح کرتی ہے۔
توحیدِ خالص کا اعلان
امام ابنِ کثیرؒ کے مطابق "قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ" میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی ایسی وحدانیت بیان کی گئی ہے جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔
"أَحَد" کا لفظ اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ اللہ اپنی ذات، صفات، قدرت اور عظمت میں یگانہ ہے۔
اللہ الصمد — سب سے بے نیاز
شیخ السعدیؒ لکھتے ہیں کہ "الصمد" کا مطلب ہے
"وہ ذات جو ہر چیز کی مالک اور ہر حاجت روا ہے، جبکہ وہ خود کسی کا محتاج نہیں"
یہ لفظ اللہ کی عظمت اور کمالِ قدرت کی بھرپور تصویر پیش کرتا ہے۔
شرک کی مکمل نفی
آیات "لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ" میں اللہ تعالیٰ نے ہر اس تصور کو ردّ کر دیا جو اسے مخلوق جیسا سمجھتا ہو۔
اللہ نہ کسی کا باپ ہے، نہ کسی کا بیٹا، اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوا۔
یہ اعلان عیسائیت، بت پرستی اور کسی بھی قسم کے نظریۂ تجسیم کا مکمل ردّ ہے۔
کوئی اس جیسا نہیں
آخری آیت "وَلَمْ یَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ" اللہ کی الوہیت کا فیصلہ کن بیان ہے۔
امام ابنِ کثیرؒ کے مطابق، اس آیت میں اللہ کے مثل، برابر، شریک یا ہمسر ہونے کے تمام امکانات ختم کر دیے گئے۔
فضائل
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
"سورۃ الاخلاص قرآن کے ایک تہائی کے برابر ہے"
(صحیح بخاری)
علماء کے مطابق اس کا سبب یہ ہے کہ قرآن کا بڑا حصہ توحید، احکام اور قصص میں تقسیم ہے، جبکہ یہ سورت توحید کے پورے باب کو مختصر الفاظ میں بیان کرتی ہے۔
خلاصہ
سورۃ الاخلاص ایک ایسی مختصر سورت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی حقیقت کو جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے انسانیت کو شرک سے پاک عقیدہ اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو ایمان کی بنیاد، عقیدے کی اصلاح اور اللہ کی پہچان کا اہم ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔
No comments:
Post a Comment